ایک خاموش جنگ
Medium | 22.12.2025 07:04
Get Asad Ullah Rahimoon’s stories in your inbox
Join Medium for free to get updates from this writer.
Subscribe
Subscribe
ایک خاموش جنگ
انسان جب بچپن کی دہلیز پر کھڑا ہوتا ہے تو بڑوں کی زندگی اسے مکمل لگتی ہے۔ ان کے لہجے، ان کے معمولات، ان کی مصروفیتیں – سب کچھ۔ وہ دل ہی دل میں خواہش کرتا ہے کہ کاش وقت ذرا تیز چلنے لگے، کاش وہ بھی جلد اس دنیا کا حصہ بن جائے جسے وہ دور سے دیکھ رہا ہے مگر جب وقت واقعی اسے اس مقام تک لے آتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ عمر بڑھتی ہے، مگر خوشیاں سمٹنے لگتی ہیں۔ تب سمجھ آتا ہے کہ بچپن ہی اصل سلطنت تھا، جہاں ذمہ داریوں کے سائے نہیں تھے اور دل پر کسی فیصلے کا بوجھ نہیں پڑتا تھا۔ ہر نوجوان خوابوں کی ایک پوٹلی اٹھائے تعلیم کے سفر پر نکلتا ہے۔ یونیورسٹی کے دروازے پر کھڑے ہو کر وہ اپنی پسند کی فیلڈ چنتا ہے، جیسے زندگی کا رخ خود متعین کر رہا ہو۔ کبھی کتابوں کے بیچ اسے اپنا مستقبل مسکراتا دکھائی دیتا ہے، اور کبھی وہی راستہ اس کے وجود کو تھکا دیتا ہے۔ تب دل کے کسی کونے سے ایک سوال ابھرتا ہے کیا میں واقعی اس خواب کے قابل ہوں یا یہ خواب مجھ سے بڑا ہے؟ ہاسٹل اور اپارٹمنٹ کے کمروں میں زندگیاں سکڑ جاتی ہیں، اور انسان ایک چھوٹی سی جگہ میں اپنی پوری کائنات سمیٹ لیتا ہے۔ یہیں آ کر نیند کم اور سوچیں بے تحاشا ہو جاتی ہیں۔ تنہائی خود سے ملاقات کا نام ہے، اور بند کتابوں کے سامنے بیٹھ کر اکثر قسمت بھی بند محسوس ہونے لگتی ہے۔اسی مرحلے پر ایک سچ بے آواز بولتا ہے: آزادی، جتنی حسین ہے، اتنی ہی بھاری بھی ہے یہ وہ مرحلہ ہے جہاں انسان ٹوٹتا بھی ہے اور بنتا بھی ہے یہ ہی ہے وہ خاموش جنگ جو بنا شور کے لڑی جاتی ہے. مگر انسان کو بدل دیتی ہے۔ مگر کچھ لوگ اس جنگ میں خود کی زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں، وہ اپنی سوچوں سے اچھے سے لڑ نہیں پاتے اندر کی خاموش جنگ کی چینکھیں برداشت نہیں ہوتی وہ جنگ کی عظیم یادیں بن جاتے ہیں ۔ اس دوڑ میں ایسے دوست ملینگے جو ہمیشہ سوال بن جاتے ہیں اور کچھ جواب بن کے بھی ساتھ نہیں رہتے ، یہاں انسان خود اکیلے چلنے کا ہنر اچھے سے آجاتا ہے ۔ آہستہ آہستہ انسان سمجھنے لگتا ہے کہ زندگی کسی سیدھی لکیر کا نام نہیں، بلکہ یہ موڑ در موڑ آزمائش ہے۔ یہاں ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک چھپی ہوئی تھکن ہوتی ہے، اور ہر خاموشی کے اندر ایک شور پلتا رہتا ہے۔ کچھ خواب وقت سے پہلے بوجھ بن جاتے ہیں، اور کچھ خواہشیں دل ہی دل میں دفن ہو جاتی ہیں۔ انسان سیکھتا ہے کہ ہر لڑائی جیتی نہیں جاتی، مگر ہر ہار ہمیں کچھ نہ کچھ سکھا جاتی ہے، اس سفر میں وہ خود کو بار بار بدلتا ہے کبھی خود کو مظبوط کرنے کے لیے کبھی صرف جینے کے لیے ۔ لوگ آتے ہیں ٹھہرتے ہیں اور پھر بغیر کچھ کہے چلے جاتے ہیں، مگر ان کی یادیں دل کے کسی کونے میں سوال بن کر رہ جاتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان یہ بھی سیکھ لیتا ہے کہ ہر درد کا اظہار ضروری نہیں ہوتا، کچھ زخم خاموشی سے سہنا ہی اصل ہمت ہوتی ہے ۔ آخرکار ایک دن وہ خود سے آنکھ ملا کر کہہ پاتا ہے کہ میں ابھی مکمل نہیں ہوں، مگر میں ٹوٹا ہوا بھی نہیں ہوں۔ یہی ادھورا پن، یہی خاموش جنگ، اسے انسان بناتی ہے۔ شاید زندگی کا حسن بھی اسی میں ہے کہ ہم ہر دن تھوڑا ہار کر بھی اگلے دن جینے کی ہمت جمع کر لیتے ہیں، اور بغیر کسی اعلان کے اپنی سب سے بڑی جنگ خود اپنے اندر جیتے رہتے ہیں۔